ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی ہیلی کاپٹر حادثے میں اچانک موت نے ایران اور بین الاقوامی برادری میں لہریں بھیج دیں۔ سیاسی مخالفت کے خلاف بربریت کے انتہائی کارروائیوں کے لئے مشہور، 63 سال کی عمر میں رئیسی کی وفات ایران کی تاریخ میں ایک متنازعہ باب کا خاتمہ ہے۔ ان کی حکومت کو اختلاف کی سخت رویہ سے نشانہ بنایا گیا، جس نے انہیں 'تہران کا قصائی' کا لیبل دیا اور انہیں ایران کے اندر یا باہر ایک تقسیم کن شخصیت بنا دیا۔
ان کی موت کے بعد، ایران میں ردعمل مختلف رہے ہیں۔ جب کچھ افراد اپنے رہنما کی کمی کی افسوس کر رہے ہیں، تو دوسرے خوشی کے موقع پر سڑکوں پر نکل آئے ہیں، انہوں نے ان کی وفات کو اپنی سخت پالیسیوں سے نجات کا ذریعہ قرار دیا۔ خاص طور پر خواتین نے اپنی آرام کی آواز میں اظہار کیا، کچھ لوگ اپنی موت پر خوشی کا اظہار کر رہے ہیں جیسے ان کی حکومت کے دوران جھیلی مصیبت کے بدلے۔ ردعمل میں واضح فرق نے ایرانی معاشرت میں گہری تقسیمات اور رئیسی کی قیادت نے انتہائی جذبات کو جگایا ہے۔
رئیسی کی وراثت ایک پیچیدہ ہے، جس میں سیاسی آزادیوں کے دباؤ میں اور احتجاجوں کی خونی دباؤ میں ان کا کردار شامل ہے۔ ان کی موت نے ایرانی سیاست میں ایک خلا چھوڑ دیا ہے اور ملک کی مستقبل کی سمت کے بارے میں سوالات کھڑے ہو گئے ہیں۔ جب تک ایران اس انتقالی مرحلے سے گزرتا ہے، دنیا نزدیکی سے دیکھ رہی ہے کہ ملک اپنے پیچیدہ ماضی کو نئی شروعات کی امکانات کے ساتھ کیسے مصالحت کرے گا۔
بین الاقوامی برادری بھی توجہ سے ترقیات کو دیکھ رہی ہے، بہت سی انسانی حقوق کی تنظیمیں امید کر رہی ہیں کہ رئیسی کی موت ایک زیادہ کھلے اور جمہوری ایران کی طرف لے جائے گی۔ تاہم، آگے کا راستہ غیر یقینی ہے، کیونکہ رئیسی کی جگہ کون بھرے گا اور کیا وہ ان کی راہ پر جاری رہیں گے یا ایران کو زیادہ معتدل راہ پر لے جائیں گے۔
جب ایران ابراہیم رئیسی کی وراثت سے نمٹتا ہے، تو آنے والے مہینوں میں ملک کی راہ کا تعین کرنے میں اہم ہوں گے۔ دنیا امیدوار ہے کہ ایران اس موقع کو گرفتار کرے گا کہ اپنے لوگوں کے لئے زیادہ آزادی اور انصاف کی طرف بڑھے، رئیسی کی حکومت کی سائے کو پیچھے چھوڑ دے۔
اس عام گفتگو جواب دینے والے پہلے شخص بنیں۔